آہ برما کے پناہ گزینوں آج تم اپنے ہوکر بھی پرائے ہو
موجودہ دور میں دوملک دو قومیں ایسی ہیں جو سب سےزیادہ مظلوم ہیں ایک فلسطین دوسرے برما کےبےیارومددگارمسلمان جنھیں کوئی مسلم ملک بھی کلی طور پر پناہ دینے کو تیار نہیں ہے زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوچکی ہے یہ دنیا انکے لئے گلوبل نہیں بلکہ اندھیر کوٹھری میں بدل چکی ہے جسکی وحشت ناکیاں انکو ہر روز مارتی اور زندہ کرتی ہیں
آیئے ذرا روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کا حال پوچھتے ہیں ۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتوار کا دن تھا میں اور میرے چند دوست اپس میں گپ شپ کر رہے تھے باتیں تو دنیاکی ترقی اور وسعت نظری کی چل رہی تھی کہ دنیا کتنی ترقی کر چکی ہے لوگ چاند سے بھی اوپر جا چکے ہیں ہر روز نئی نئی چیزیں دریافت ہو رہی ہیں انسان کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہے آسائش اور آرائش کے مختلف قسم کے سامان دیکھکر انسان خدبھی حیرت میں ہے کہ آخر اتنی پر آسائش اور مزے دار چیزیں کسنے ایجاد کی ہونگی خوشنما کپڑے بہترین ٹیکنالوجی سے مزین نئی اقسام کی گاڑیاں حد تو یہاں ہو چکی ہے
کہ جتنا سامان انسان نے اپنے وجود کی بقا کے لئے نہیں بنایاہے جتنا انسانی وجود کو مخلوق خدا کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے آلات حرب وضرب کی شکل میں بنایا ہے جیسے جوہری ہتھیار پل بھر میں آن بان والے شہروں کو ختم کرنے والے مزائل
مزید یہ کہ ان سب چیزوں کو بنانے والے خد کو دنیا کی سب سے معزز قوم سمجھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔لیکن ہم جب نسل انسانی کی تاریخ اور حس کے دوسرے رخ کو دیکھتے ہیں تو یہ انسان جونوروں سے زیادہ بد تر نظر آتاہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم سناتے ہیں برما کے مسلمانوں کا انکھوں دیکھا حال میں اور میرے چند دوست جب گفتگو کر رہے تھے تو اچانک ایک پیغام میرے موبائل پر موصول ہوا پیغام کا عنوان تھا
کیا انسانیت زندہ ہے یاپھر انسانوں کے نام پر جانور زندہ ہیں
اس ہیڈلائن کو پڑھکر پیغام میں میرا تجسس اور بڑھ گیا دوستوں سے گفتگو کرتے کرتے اس پیغام کو پڑھا اور ایک لمبی سی سانس خد بخد میرے منھ سے یہ الفاظ کہتے ہوے نکلی۔۔۔۔
جھک گیا سر آج میرا خد کو مسلماں کہتے کہتے۔۔۔۔۔
دوستوں نے خلاف توقع جملہ سنکر معلوم کرنا چاہا تو مینے انکو پورا واقعہ سنایا کہ دہلی کے سرحدی علاقہ میں برماکے روہنگیا مسلمانوں پر کیا گزر رہی ہے 30کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کے بیچ چند گنے چنے دبے کچلے مظلوم مسلمان اپنے ملک سے اپنے ایمان اور عزت کے تحفظ کی خاطر ہجرت کرکےہندوستان چلے آئے کہ تیس کروڑ مسلمان ہمیں کسی بھی حال میں بھوکا پیاسا نہیں رہنے دینگے انصار مدینہ کی طرح اگر اپنے گھروں میں بھی جگہ نہیں دے سکتے تو کم از کم اپنے مال اور محبت کے ذریع ہماری حوصلہ افزائی تو ضرور کرینگے ۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔ لیکن شاید انہیں معلوم نہیں تھا کہ ہندوستان کے مسلمان زندہ ہونے کہ باوجود مردہ ہوچکے ہیں انکی غیرت ایمانی اور جزبہ حریت ماند پڑچکا ہے اب ان میں اورنگزیب یا ٹیپو سلطان کا خون نہیں
بلکہ سلمان خان اور سچن کے خیالات و نظریات والاخون دوڑتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
بہر حال ہمنیں روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کے کیمپ کا ارادہ کیا اور اگلے ہی روز ہم وہاں پہنچے صبح کا وقت تھا سورج اپنی کرنو کے ساتھ نکلتا ہوا بہت ہی خوب صورت لگ رہا تھا معصوم بچے احوال زندگی سے بے خبر اپنی کھیل کود کی زندگی میں مصروف تھے بزگ اور جوان اس نئی صبح کی روزی تلاش کرنے کے لئے تیار ہورہے تھے خواتین پچھلے دن کے بچے کھانے کو گرم کرکے بچوں اور کام گروکے لئے تیار کر رہیں تھی کہ میلے کچلے پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ایک بزگ ہمیں دیکھکر سوالیہ نظروں سے ہمارے قریب آئے اورخاموش بے جان انسان کی طرح کھڑے ہو گئے جیسے انسے کوئی بہت بڑی غلطی سرزد ہو گئی ہو
ہمنے انسے معلوم کرنا چاہا کے اپ کے حالات کیسے ہیں تو وہ بغیر جواب دئے واپس چلے گئے اور چند لمحے بعد پھر واپس آئے ہاتھ میں چائے کے ٹوٹے کپ اور بلکل کم دودھ کی چائےسامنے رکھ کر ہم سے پینے کی گزارش کی ہم نا چاہتے ہوے بھی اس غریب مسلمان کی محبت بھری چائے کے کپ کو منع نا کرسکے
چائے پیتے ہوئے ان سےاور انکے گھر کے دیگر افراد سے کچھ باتیں ہوئیں جو اپکے سامنے پیش کر رہا ہوں ہم اور ہمارے ساتھ بہت سے افراددو ہزار گیارہ میں برما چھوڑ کر ہندوستان آئے کافی جان جوکھم میں ڈالکر یہ سفر بذریع کشتی طے کرتے ہوےہم ہندوستان کے بنگلہ بوڈر تک پہنچے
پھر ہم لوگو کو دہلی آنے کے لئے کچھ لوگو نے ہماری مدد کی ہم دہلی پہنچکر بہت خوش تھے اور آج بھی ہیں
کیونکہ دہلی کہ مسلمانوں نے ہماری ہر طریقے سے مددکی ہے ابتداءً ہماری زندگی بہت خوشگوار تھی لیکن پھر لوگو کی توجہ اہستہ اہستہ کم ہوتی چلی گئی اور ہم تنہا ہو گئے ابھی بھی کچھ لوگ وقتا فوقتا اتے رہتے ہیں مدد بھی کرتے ہیں
لیکن وہ زندگی کے کے لئے ناکافی ہوتی ہے کیونکہ اکثر گھروں میں بچے بیمار ہیں تعلیم کا کوئی مناسب بندوبست نہیں ہے
کام پر جاتے ہیں تو لوگوکو معلوم ہوجاتا ہے جسکی وجہ سے دوبارہ ہمیں کام پر نہیں بلایا جاتا
مزید گفتگو بہت طویل ہے اور ان پناہ کے متلاشی لوگوں کی پریشانیا بھی ناقابل تحریر ہیں ان حضرات کے گھر اگر اپ دیکھینگے تو آپ سمجھ لینگے کہ شاید ہمارےگھروں کے جانور بھی اچھی جگہوں میں رہتے ہیں گرمیوں میں دھوپ سے بچنے کے لئے مناسب بندو بست نہیں اور سردیوں میں ٹھٹرتی سردی برف جما دینے والی ہواؤں سے بچنے کا بھی کوئی معقول تو کیا غیر معقول بھی انتظام نہیں ہے
بستی ایک گندے نالےکے کنارے آباد ہے جسکا رقبہ ایک یا دو ایکڑ سے زیادہ نہیں ہے 1200 افراد پر مشتمل یہ روہنگیا مسلمان بے بسی مجبوری اور انسان ہونے کے باوجود غیر انسانی زندگی گزارنے کے لئے مجبور ہیں
حکومت کی نا اہلی اور مسلمان ہونے کی وجہ سے امتیازی سلوک کی وجہ سے انہیں اور بھی پریشانیوں کا سامنا ہے جو سہولیات پناہ گزینو کو عالمی قوانین کے مطابق ملنی چاہئیں وہ بھِی انکو میسر نہیں ہیں
ان حالات میں دیکھکر دل یہی کہ رہا تھا چلو جو کام حکومت نہیں کر پا رہی ہے ہم ہی کر لیتے ہیں
ٹاٹ ٹپر کے بنے گھر کچی بیت الخلا کھلے میدان میں سونے کو مجبور یہ مسلمان آج پھر غیرت مسلم کو زندہ کرنے کے لئے کافی تھے ۔۔۔۔
سوال انکا نہیں ہمارا ہے کیا حضرت عمرؓ کو اپنا کردار کہنے والے مسلمان۔۔۔۔۔۔ خد کو محمد بن قاسم اور طارق بن زیاد کے کردار کا امین کہنے والے مسلمان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صلاح الدین ایوبی اور محمود کے علمبردار مسلمان کہاں مرگئے کیا مسلمان دنیا سے ختم ہو چکاہے کیا غیرت ایمانی کے نام پر مر مٹنے والے مسلمان تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں ۔۔۔
کیا بچے کچے مسلمانوں کو ہمنے کافروں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے کیا ہم ایمان غِیرت اورعزت کا سود اکرچکے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج پھر برما فلسطین شام کی مائیں بہنے اور معصوم بچے کسی غیرت مند جرئت مند مسلمان کو پکار رہے ہیں کیا کوئی ہے جو صلاح الدین جیسا جگر محمود جیسی بہادری اور قاسم جیسا جزبہ طارق جیسا
ایمان لیکر سربکف ہو کر میدان کار زار میں مسلمانوں کی عزت کا پاسباں بنکر نکلے
اور پھر مسلمانوں کی غیرت ایمانی کی آبیاری کرے
ہے کوئی جیالہ ۔ہے کوئی مرد مجاہد۔ہے کوئی غزنوی کا وارث ہے کوئی امت محمدیہ کو کھویا مقام واپس لاکر دینے والا۔۔۔۔
بس ایک سناٹا ہے جو میری پوری قوم پر تاری ہے ماوں بہنوں کی چیخ وپکار آج ہمارے کانوں تک پہنچ ہی نہیں رہی ہے
یا پھر ہم سننا نہیں چاہتے ۔۔۔۔۔۔
دنیا کے لئے چیخ پکار کرنے والے مسلمانوں اپنے ملک کے حالات پر اتنی گھری خاموشی کسی حادثہ کی نشاندہی کر رہی ہے
فلسطین تم جا نہیں سکتے عراق
شام کےمسلمانوں کا درد ہمیں محسوس نہیں ہوتا
تو کم ازکم اتنا ہی کرلو کے جو مسلمان پناہ گزیں یا پریشان حال ہندوستان میں موجود ہیں انکے حالات کی درستگی کا کوئی مناسب فیصلہ کرلو
آنکھوں دیکھا حال ہے یقین نہ ہو تو جاکر
خد دیکھ لو
اپکا بھائی ۔مولانا مرغوب الرحمٰن اسلام۔۔
صدر جمعیت علماءاسلام ہند
💯JAMIAT ULAMA E ISLAM INDIA👊
👉The Islamic Organizations Jamiatulamaeislam@gmail.com
☎Contact. No.
9⃣1⃣3⃣6⃣2⃣0⃣1⃣0⃣0⃣3⃣
📱WhatsApp.No
9⃣2⃣1⃣0⃣0⃣8⃣1⃣0⃣0⃣4⃣
موجودہ دور میں دوملک دو قومیں ایسی ہیں جو سب سےزیادہ مظلوم ہیں ایک فلسطین دوسرے برما کےبےیارومددگارمسلمان جنھیں کوئی مسلم ملک بھی کلی طور پر پناہ دینے کو تیار نہیں ہے زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوچکی ہے یہ دنیا انکے لئے گلوبل نہیں بلکہ اندھیر کوٹھری میں بدل چکی ہے جسکی وحشت ناکیاں انکو ہر روز مارتی اور زندہ کرتی ہیں
آیئے ذرا روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کا حال پوچھتے ہیں ۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتوار کا دن تھا میں اور میرے چند دوست اپس میں گپ شپ کر رہے تھے باتیں تو دنیاکی ترقی اور وسعت نظری کی چل رہی تھی کہ دنیا کتنی ترقی کر چکی ہے لوگ چاند سے بھی اوپر جا چکے ہیں ہر روز نئی نئی چیزیں دریافت ہو رہی ہیں انسان کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہے آسائش اور آرائش کے مختلف قسم کے سامان دیکھکر انسان خدبھی حیرت میں ہے کہ آخر اتنی پر آسائش اور مزے دار چیزیں کسنے ایجاد کی ہونگی خوشنما کپڑے بہترین ٹیکنالوجی سے مزین نئی اقسام کی گاڑیاں حد تو یہاں ہو چکی ہے
کہ جتنا سامان انسان نے اپنے وجود کی بقا کے لئے نہیں بنایاہے جتنا انسانی وجود کو مخلوق خدا کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے آلات حرب وضرب کی شکل میں بنایا ہے جیسے جوہری ہتھیار پل بھر میں آن بان والے شہروں کو ختم کرنے والے مزائل
مزید یہ کہ ان سب چیزوں کو بنانے والے خد کو دنیا کی سب سے معزز قوم سمجھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔لیکن ہم جب نسل انسانی کی تاریخ اور حس کے دوسرے رخ کو دیکھتے ہیں تو یہ انسان جونوروں سے زیادہ بد تر نظر آتاہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم سناتے ہیں برما کے مسلمانوں کا انکھوں دیکھا حال میں اور میرے چند دوست جب گفتگو کر رہے تھے تو اچانک ایک پیغام میرے موبائل پر موصول ہوا پیغام کا عنوان تھا
کیا انسانیت زندہ ہے یاپھر انسانوں کے نام پر جانور زندہ ہیں
اس ہیڈلائن کو پڑھکر پیغام میں میرا تجسس اور بڑھ گیا دوستوں سے گفتگو کرتے کرتے اس پیغام کو پڑھا اور ایک لمبی سی سانس خد بخد میرے منھ سے یہ الفاظ کہتے ہوے نکلی۔۔۔۔
جھک گیا سر آج میرا خد کو مسلماں کہتے کہتے۔۔۔۔۔
دوستوں نے خلاف توقع جملہ سنکر معلوم کرنا چاہا تو مینے انکو پورا واقعہ سنایا کہ دہلی کے سرحدی علاقہ میں برماکے روہنگیا مسلمانوں پر کیا گزر رہی ہے 30کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کے بیچ چند گنے چنے دبے کچلے مظلوم مسلمان اپنے ملک سے اپنے ایمان اور عزت کے تحفظ کی خاطر ہجرت کرکےہندوستان چلے آئے کہ تیس کروڑ مسلمان ہمیں کسی بھی حال میں بھوکا پیاسا نہیں رہنے دینگے انصار مدینہ کی طرح اگر اپنے گھروں میں بھی جگہ نہیں دے سکتے تو کم از کم اپنے مال اور محبت کے ذریع ہماری حوصلہ افزائی تو ضرور کرینگے ۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔ لیکن شاید انہیں معلوم نہیں تھا کہ ہندوستان کے مسلمان زندہ ہونے کہ باوجود مردہ ہوچکے ہیں انکی غیرت ایمانی اور جزبہ حریت ماند پڑچکا ہے اب ان میں اورنگزیب یا ٹیپو سلطان کا خون نہیں
بلکہ سلمان خان اور سچن کے خیالات و نظریات والاخون دوڑتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
بہر حال ہمنیں روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کے کیمپ کا ارادہ کیا اور اگلے ہی روز ہم وہاں پہنچے صبح کا وقت تھا سورج اپنی کرنو کے ساتھ نکلتا ہوا بہت ہی خوب صورت لگ رہا تھا معصوم بچے احوال زندگی سے بے خبر اپنی کھیل کود کی زندگی میں مصروف تھے بزگ اور جوان اس نئی صبح کی روزی تلاش کرنے کے لئے تیار ہورہے تھے خواتین پچھلے دن کے بچے کھانے کو گرم کرکے بچوں اور کام گروکے لئے تیار کر رہیں تھی کہ میلے کچلے پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ایک بزگ ہمیں دیکھکر سوالیہ نظروں سے ہمارے قریب آئے اورخاموش بے جان انسان کی طرح کھڑے ہو گئے جیسے انسے کوئی بہت بڑی غلطی سرزد ہو گئی ہو
ہمنے انسے معلوم کرنا چاہا کے اپ کے حالات کیسے ہیں تو وہ بغیر جواب دئے واپس چلے گئے اور چند لمحے بعد پھر واپس آئے ہاتھ میں چائے کے ٹوٹے کپ اور بلکل کم دودھ کی چائےسامنے رکھ کر ہم سے پینے کی گزارش کی ہم نا چاہتے ہوے بھی اس غریب مسلمان کی محبت بھری چائے کے کپ کو منع نا کرسکے
چائے پیتے ہوئے ان سےاور انکے گھر کے دیگر افراد سے کچھ باتیں ہوئیں جو اپکے سامنے پیش کر رہا ہوں ہم اور ہمارے ساتھ بہت سے افراددو ہزار گیارہ میں برما چھوڑ کر ہندوستان آئے کافی جان جوکھم میں ڈالکر یہ سفر بذریع کشتی طے کرتے ہوےہم ہندوستان کے بنگلہ بوڈر تک پہنچے
پھر ہم لوگو کو دہلی آنے کے لئے کچھ لوگو نے ہماری مدد کی ہم دہلی پہنچکر بہت خوش تھے اور آج بھی ہیں
کیونکہ دہلی کہ مسلمانوں نے ہماری ہر طریقے سے مددکی ہے ابتداءً ہماری زندگی بہت خوشگوار تھی لیکن پھر لوگو کی توجہ اہستہ اہستہ کم ہوتی چلی گئی اور ہم تنہا ہو گئے ابھی بھی کچھ لوگ وقتا فوقتا اتے رہتے ہیں مدد بھی کرتے ہیں
لیکن وہ زندگی کے کے لئے ناکافی ہوتی ہے کیونکہ اکثر گھروں میں بچے بیمار ہیں تعلیم کا کوئی مناسب بندوبست نہیں ہے
کام پر جاتے ہیں تو لوگوکو معلوم ہوجاتا ہے جسکی وجہ سے دوبارہ ہمیں کام پر نہیں بلایا جاتا
مزید گفتگو بہت طویل ہے اور ان پناہ کے متلاشی لوگوں کی پریشانیا بھی ناقابل تحریر ہیں ان حضرات کے گھر اگر اپ دیکھینگے تو آپ سمجھ لینگے کہ شاید ہمارےگھروں کے جانور بھی اچھی جگہوں میں رہتے ہیں گرمیوں میں دھوپ سے بچنے کے لئے مناسب بندو بست نہیں اور سردیوں میں ٹھٹرتی سردی برف جما دینے والی ہواؤں سے بچنے کا بھی کوئی معقول تو کیا غیر معقول بھی انتظام نہیں ہے
بستی ایک گندے نالےکے کنارے آباد ہے جسکا رقبہ ایک یا دو ایکڑ سے زیادہ نہیں ہے 1200 افراد پر مشتمل یہ روہنگیا مسلمان بے بسی مجبوری اور انسان ہونے کے باوجود غیر انسانی زندگی گزارنے کے لئے مجبور ہیں
حکومت کی نا اہلی اور مسلمان ہونے کی وجہ سے امتیازی سلوک کی وجہ سے انہیں اور بھی پریشانیوں کا سامنا ہے جو سہولیات پناہ گزینو کو عالمی قوانین کے مطابق ملنی چاہئیں وہ بھِی انکو میسر نہیں ہیں
ان حالات میں دیکھکر دل یہی کہ رہا تھا چلو جو کام حکومت نہیں کر پا رہی ہے ہم ہی کر لیتے ہیں
ٹاٹ ٹپر کے بنے گھر کچی بیت الخلا کھلے میدان میں سونے کو مجبور یہ مسلمان آج پھر غیرت مسلم کو زندہ کرنے کے لئے کافی تھے ۔۔۔۔
سوال انکا نہیں ہمارا ہے کیا حضرت عمرؓ کو اپنا کردار کہنے والے مسلمان۔۔۔۔۔۔ خد کو محمد بن قاسم اور طارق بن زیاد کے کردار کا امین کہنے والے مسلمان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صلاح الدین ایوبی اور محمود کے علمبردار مسلمان کہاں مرگئے کیا مسلمان دنیا سے ختم ہو چکاہے کیا غیرت ایمانی کے نام پر مر مٹنے والے مسلمان تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں ۔۔۔
کیا بچے کچے مسلمانوں کو ہمنے کافروں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے کیا ہم ایمان غِیرت اورعزت کا سود اکرچکے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج پھر برما فلسطین شام کی مائیں بہنے اور معصوم بچے کسی غیرت مند جرئت مند مسلمان کو پکار رہے ہیں کیا کوئی ہے جو صلاح الدین جیسا جگر محمود جیسی بہادری اور قاسم جیسا جزبہ طارق جیسا
ایمان لیکر سربکف ہو کر میدان کار زار میں مسلمانوں کی عزت کا پاسباں بنکر نکلے
اور پھر مسلمانوں کی غیرت ایمانی کی آبیاری کرے
ہے کوئی جیالہ ۔ہے کوئی مرد مجاہد۔ہے کوئی غزنوی کا وارث ہے کوئی امت محمدیہ کو کھویا مقام واپس لاکر دینے والا۔۔۔۔
بس ایک سناٹا ہے جو میری پوری قوم پر تاری ہے ماوں بہنوں کی چیخ وپکار آج ہمارے کانوں تک پہنچ ہی نہیں رہی ہے
یا پھر ہم سننا نہیں چاہتے ۔۔۔۔۔۔
دنیا کے لئے چیخ پکار کرنے والے مسلمانوں اپنے ملک کے حالات پر اتنی گھری خاموشی کسی حادثہ کی نشاندہی کر رہی ہے
فلسطین تم جا نہیں سکتے عراق
شام کےمسلمانوں کا درد ہمیں محسوس نہیں ہوتا
تو کم ازکم اتنا ہی کرلو کے جو مسلمان پناہ گزیں یا پریشان حال ہندوستان میں موجود ہیں انکے حالات کی درستگی کا کوئی مناسب فیصلہ کرلو
آنکھوں دیکھا حال ہے یقین نہ ہو تو جاکر
خد دیکھ لو
اپکا بھائی ۔مولانا مرغوب الرحمٰن اسلام۔۔
صدر جمعیت علماءاسلام ہند
💯JAMIAT ULAMA E ISLAM INDIA👊
👉The Islamic Organizations Jamiatulamaeislam@gmail.com
☎Contact. No.
9⃣1⃣3⃣6⃣2⃣0⃣1⃣0⃣0⃣3⃣
📱WhatsApp.No
9⃣2⃣1⃣0⃣0⃣8⃣1⃣0⃣0⃣4⃣
No comments:
Post a Comment